Posts

Showing posts from February, 2021

اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

 اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں شام بھی ہو گئی دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں ایک اک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکنا دیکھوں بند کر کے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایا دیکھوں میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اسے بس اک بار خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں تو مری طرح سے یکتا ہے مگر میرے حبیب جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں ...

نذرِ اہلِ ذوق و شوقِ شاعری۔۔!

 نذرِ اہلِ ذوق و شوقِ شاعری۔۔! ۔ جب بھی مُرغانِ گرفتار گِنے جاتے ہیں ہم پرندے وہاں غدّار گِنے جاتے ہیں دیس کو توڑنے والے بھی وہی ہیں لیکن دیس کے ، خاص وفادار گِنے جاتے ہیں وہی قبریں ہیں جہاں پر کوئی مدفون نہیں وہی کتبے ہیں ، جو ہر بار گِنے جاتے ہیں کتنے دن بیت گئے ،،،، کتنے ابھی باقی ہیں  دن ہی گننے ہیں تو سرکار ! گِنے جاتے ہیں مسجدوں میں کوئی خوش باش کہاں آتا ہے ہسپتالوں میں ہی ،،،، بیمار گِنے جاتے ہیں اَن گنَت ہوتے تھے دیہات میں شہروں میں کبھی اب تو جنگل میں بھی ،،،،، اشجار گِنے جاتے ہیں معذرت !!!! آپ نہیں آئے اگر گنتی میں ہم سے بس صاحبِ کردار گِنے جاتے ہیں آپ سَر پَیر کے بارے میں بتاتے ہی نہیں اور دستار پہ دستار ،،،،،،، گِنے جاتے ہیں دبی چنگاری کو مَیں آگ لگا دیتا ہُوں لوگ اشعار پہ  اشعار  گِنے جاتے ہیں یعنی تُم دیکھتی آنکھوں کو بھی گِن سکتی ہو یعنی میخانوں میں مَے خوار گِنے جاتے ہیں

عرب کی وصیتیں

  جو قیامت تک آنے والی عورتوں کیلئے مشعل راہ ہیں، عرب کی ایک مشہور عالمہ نے اپنی بیٹی کو دس نصیحتیں کیں ان دس نصیحتوں میں ایسی باتیں موجود ہیں جو قیامت تک آنے والی عورتوں کے لیے مشعل راہ ہیں، عالمہ نے اپنی بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک، شوہر کے گھر جا کر قناعت والی زندگی گزارنے کی کوشش کرنا، شوہر کے گھر جو دال روٹی ملے اس پر راضی رہنا جو روکھی سوکھی شوہر کی خوشی کے ساتھ مل جائے وہ اس مر غ پلاؤ سے بہتر ہے جو تمہارے اصرار کرنے پر اس نے نا راضگی سے دیا ہو۔ دوسری بات عالمہ نے یہ کہی کہ میری بیٹی، اپنے شوہر کی بات کو ہمیشہ توجہ سے سننا اور اس کو اہمیت دینا اور ہر حال میں شوہر کی بات پر عمل کرنے کی کو شش کرنا، اس طرح تم ان کے دل میں جگہ بنا لو گی کیونکہ اصل آدمی نہیں آدمی کا کام پیارا ہوتا ہے۔  تیسری بات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی زینت و جمال کا ایسا خیال رکھنا کہ جب وہ تجھے نگاہ بھر کے دیکھے تو اپنے انتخاب پر خوش ہو اور سادگی کے ساتھ جتنی بھی استطاعت ہو خوشبو کا اہتمام ضرور کرنا اور یاد رکھنا کہ تیرے جسم و لباس کی کوئی بو یا کوئی بری ہیئت اس کے دل میں نفر...

آج کی چند اہم باتیں

 1⃣ سفرکا مزه لینا هو توساتھ میں سامان کم رکھیں.زندگی کا مزه لینا هو تودل کے ارمان کم رکھیں. 2⃣ مٹی کی پکڑ بہت مضبوط ہوتی ہےے.سنگ مرمر پر تو پاؤں ہی پھسل جاتے ہیں 3⃣ زندگی کو اتنا سیریس مت لو دنیا سے زنده کوئی بھی نهیں گیا. 4⃣ جن کے پاس سِکّے تھےوه مزے سے بارش میں بھیگتےرهے.جن کے پاس نوٹ تھےوه چھت تلاش کرتے ره گیۓ. 5⃣ پیسه انسان کو اوپر لیجا سکتا هےلیکن انسان پیسے کو کبھی اوپر لے کر نهیں جا سکتا. 6⃣ کمائی چھوٹی یا بڑی هو سکتی هےلیکن روٹی کا سائز هر گھر میں ایک جیسا هی هوتا هے. 7⃣ انسان کی چاهت هےکه اڑنے کو پر ملےاور پرندے کی چاهت هے رهنےکو گھر ملے. 8⃣ چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں رکھنےسے بڑے بڑے رشتے کمزور هو جاتے هیں. 9⃣ پیٹھ پیچھے آپکی بات چلے تو گبھرانا مت کیونکہ بات انھیں کی هوتی هے جن میں کوئی بات هوتی هے..

والدین کا دل جیتنے کے لیے دس باتوں کا خیال رکھیں

 والدین کا دل جیتنے کے لیے دس باتوں کا خیال رکھیں ماں اور باپ کے رشتے ایسے ہیں کہ جن کا دنیا میں کوئی بدل نہیں لہذا  اپنے ماں باپ کی خوب خوب خدمت کرکے ، ان کے دل جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ کیوں کہ ماں باپ کی ایک دعا ہی انسان کی دنیا و آخرت سنوارنے کے لیے کافی ہے۔  ذیل میں وہ دس باتیں بتائی جا رہی ہیں جن سے آپ اپنے ماں باپ کا دل جیت سکتے ہیں نمبر ایک: والدین کو وقت دیجئے آج کے دور میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی دلچسپی کے لیے بہت سی چیزیں ایجاد ہو گئی ہیں۔ ویڈیو گیمز، کمپیوٹر، ٹی وی، سوشل میڈیا اور دوستوں کا ایک وسیع حلقہ انہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ اپنے والدین کے پاس تھوڑا وقت  گزار سکیں۔ مگر یاد رکھیں کہ آپ چاہے کتنے ہی بڑے ہوجائیں، اپنے والدین کی نظر میں بچے ہی ہیں۔ جو اپنے جگر گوشے کو ہر دم اپنے قریب دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ کی باقی تمام خدمات سے بڑھ کر جو چیز آپ کے والدین کے لیے نہایت قیمتی ہے وہ آپ کا ان کے پاس بیٹھنا ہے۔ کوشش کریں کہ یہ بیٹھنا خانہ پوری اور جبر والا نہ ہو بلکہ ایسا ہو جیسے دو انتہائی محبت کرنے والے دوست ایک دوسرے کی گفتگو سے لطف اندوز ہوا کرتے ہی...

نہ بنے

 زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے اور چاہیں کہ چھُپا لیں تو چھُپائے نہ بنے ہائے بےچارگیِ عشق کہ اس محفل میں سر جھُکائے نہ بنے، آنکھ اٹھائے نہ بنے یہ سمجھ لو کہ غمِ عشق کی تکمیل ہوئی ہوش میں آ کے بھی جب ہوش میں آئے نہ بنے کس قدر حُسن بھی مجبورِ کشا کش ہے کہ آہ منہ چھُپائے نہ بنے، سامنے آئے نہ بنے ہائے وہ عالمِ پُر شوق کہ جس وقت جگر اُس کی تصویر بھی سینے سے لگائے نہ بنے

دل دھڑکتا ہے

 جبھی تو سنتے ہی کانوں  میں دل دھڑکتا ہے کہ دل سے کی گئی باتوں میں دل دھڑکتا ہے  حضورِ یار لرزتا نہیں مرا کاسہ  یہ مجھ فقیر کے ہاتھوں میں دل دھڑکتا ہے  یہ کس کی دید کو بے تاب ہیں مری آنکھیں کہ رات دن مری آنکھوں میں دل دھڑکتا ہے  ہے جان جیب تراشوں کے ہاتھ میں اس کی کہ اس کا جیب کے سکوں میں دل دھڑکتا ہے  کبھی کبھی میں کوئی کام دل سے کرتا ہوں کبھی کبھی مرے کاموں میں دل دھڑکتا ہے کوئی تو ٹھیک سے اک عمر بھی نہیں جیتا کسی کسی کا زمانوں میں دل دھڑکتا ہے  وہ شخص طاق ہے رنگوں کی شاعری میں کبیر کہ اس کے ہاتھ سے ساتوں میں دل دھڑکتا ہے

ستم گزار

 وہ انا پرست تھا اسکی باتوں میں اقرار بھی تھا اسکے چبھتے ہوۓ لہجے میں چھپا پیار بھی تھا وہ مجھے لکھتا تھا کے منتظر نہ رہو___!! لیکن اسکی تحریر میں صدیوں کا انتظار بھی تھا وہ کہتا تھا نہ روٹھو کے منانا نہیں آتا میری ناراضگی پر لیکن وہ بے قرار بھی تھا میں شاید پھرنہ لکھتی اسکو اپنی خبر~~!! محبت کا بھرم رکھنا تھا کچھ دل بے اختیار بھی تھا شاید یہی اسکا انداز محبت ہو~~!! وہ میرا ہمدم تھا ستم گزار بھی تھا

(اے عشق ہمیں برباد نہ کر)

 (اے عشق ہمیں برباد نہ کر) اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر! پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم  تو اور ہمیں ناشاد نہ کر! قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ  یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر!  یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر! اے عشق ہمیں برباد نہ کر! جس دن سے ملے ہیں دونوں کا سب چین گیا، آرام گیا چہروں سے بہار صبح گئی  آنکھوں سے فروغ شام گیا ہاتھوں سے خوشی کا جام چھٹا ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا  غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر! اے عشق ہمیں برباد نہ کر! راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں رو رو کے دعائیں کر تے ہیں آنکھوں میں تصور،دل میں خلش سر دھنتے ہیں آہیں بھرتےہیں اے عشق! یہ کیسا روگ لگا جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں؟  یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر! اے عشق ہمیں برباد نہ کر! یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں  رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ ہر وقت تپش، ہر وقت خلش بے خواب ہوں میں،بیدار ہے وہ جینے سے ادھر بیزار ہوں میں مرنے پہ ادھر تیار ہے وہ  اور ضبط کہے فریاد نہ کر! اے عشق ہمیں برباد نہ کر! جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا گھبرائےہوئے سے رہتے ہیں ہر وقت تصور کر کر کے  شرمائے ہوئے سے رہتے ہ...

اے زندگی

 ہم تری دھن میں پریشاں زندگی اے زندگی اور تُو ہم سے گریزاں زندگی اے زندگی محوِ حیرت ہیں کہ تجھ کو ڈھونڈنے جائیں کہاں منزلیں ہیں خاک ساماں زندگی اے زندگی انجمن آرا ہے تو غیروں میں کب سے اور ہم پھر رہے ہیں چاک داماں زندگی اے زندگی تجھ سے کٹ کر مثلِ گرد و باد آوارہ منش ہم ہیں اور آلام دوراں زندگی اے زندگی تُو کہیں ساقی گری میں کھوگئی ہے اور یہاں ڈس گیا انساں کو انساں زندگی اے زندگی تجھ کو پاکر بھی نہ تھا ہم کو سکونِ دل نصیب تجھ کو کھو کر بھی پشیماں زندگی اے زندگی
 نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا اسلام وعلیکم  کیسے ہیں  سب دوست

جوانی کی یاد

 ایک دادا اور دادی نے اپنی جوانی کی یاد تازہ کرنے کا سوچا...😎😎😎 انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پھر سے دریا کے کنارے ملیں گے😁😁 ...دادا تیار ہوکر بال بنا کر ہاتھ میں پھول لے کر دریا کے کنارے چلا گیا.🙃🙃 ٹھنڈی ہواؤں میں دادی کا انتظار کر نے لگا بہت انتظار کیا لیکن دادی نہ آئی_ _ دادا کو بہت غصہ آیا،😠😠 جب وہ گھر آیا تو دادی کرسی پر بیٹھی مسکرارہی تھی....🙄🙄 دادا! تم کیوں نہیں آئی¿🤨🤨 دادی ! امی نے آنے نہیں دیا😛😛

تمام شد

 مرتے  ہوئے  وجود  کی  حسرت    تمام شد سانسوں  سے  لپٹی  آخری  چاہت تمام شد دست؍قضا     بڑھا   ہے  مری  سمت  الوداع اے    اعتکاف؍عشق     عبادت      تمام شد ساقی تمہارے مدھ بھرے ہونٹوں کا شکریہ بادہ  کشی  کی   ساری    حلاوت  تمام شد ٹوٹی  ہے آج سانس کی ڈوری تو یوں  ہوا ان  دیکھی   منزلوں کی مسافت  تمام شد بجھتے ہوئے چراغ کی صورت ہوا ہوں میں اک   خوبرو   وجود   کی   طاقت تمام شد اے   بار گاہ؍ حسن     کوئی  فیصلہ تو کر اس   نامراد   عشق   کی حجت  تمام شد ارشد مجھے تو غیب سے آتی ہے اب صدا ابن؍ تراب !  اب تری     مہلت    تمام شد

کیا کرنا

 کوئی غزل سنا کر کیا کرنا ؟ یوں بات بڑھا کر کیا کرنا ؟ تم میرے تھے تم میرے ھو دنیا کو بتا کر کیا کرنا ؟ تم عہد نبھاؤ چاھت سے کوئی رسم نبھا کر کیا کرنا ؟ تم خفا بھی اچھے لگتے ھو پھر تم کو منا کر کیا کرنا ؟ تیرے در پہ آ کے بیٹھے ھیں اب گھر بھی جا کر کیا کرنا ؟ دن یاد سے اچھا گزرے گا پھر تم کو بھلا کر کیا کرنا ؟

میرا خواب

 میری شادی ایک ان پڑھ سے ہوئی تھی جبکہ میں پڑھی لکھی ہوں میرا نام شہزادی ہے سچ بتاوں تو میرا خواب تھا ایک پڑھا لکھا اچھا کمانے والا لڑکا لیکن کچھ مجبوریوں میں عمر سے شادی کر دی گئی مجھے عمر سے بدبو آتی تھی   ان کا کام اتنا اچھا نہ تھا خیر میں اللہ کے سامنے رو کر دعا مانگتی تھی یا اللہ یا تو عمر کو مار دے یا پھر اس سے جان چھڑوا دو میری کسی طرح وہ جاہل سا بولنے کا بھی نہیں پتا. میں ہر بات پہ عمر کو بے عزت کر دیتی تنقید کرتی عمر پہ غصہ کرتی عمر مجھے پیار سے سمجھاتا کبھی چپ ہو جاتا کبھی غصہ ہو کر گھر سے باہر چلا جاتا میں ایک بار جھگڑ کر امی ابو کے پاس چلی گئی اور ضد کی کے بس طلاق لینی ہے عمر سے امی ابو نے بہت سمجھایا کے بیٹی لڑکا اچھا ہے نہ کرو ایسا بس بیچارہ پڑھا لکھا نہیں ہے باقی کیا کبھی اس نے تم پہ ہاتھ اٹھا یا یا گالی دی ہو لیکن میں بس طلاق لینا چاہتی تھی.  میں نے جھوٹ بولا کے وہ خرچہ نہیں دیتا مجھے امی ابو نے عمر کو بلوا لیا وہ میرے سامنے بیٹھا تھا امی ابو کہنے لگے عمر کیوں بھای تم شہزادی کو خرچہ کیوں نہیں دیتے عمر بابا سے مخاطب ہو کر بولا انکل جی جو کما کر لاتا ہو...

ہار کے پیچھے

 اقرار ہی تو ہے اس کے انکار کے پیچھے جیت نظر آ رہی ہے مجھےہار کے پیچھے ہمارے سامنےتو ہے آفتابِ ہجر کا ظہور جبکہ سایہٕ وصل ہے دیوار کے پیچھے دو نہیں تو چار دن جشنِ بہار منالو گے ایک دن خزاں نے آنا ہے بہار کے پیچھے وہ تو الجھنے سے محتاط رہتا تھا آج سبب کیا ہے اس کے تکرار کے پیچھے چوٹ کھا کر آ جاۓ گا راہِ راست پہ اگر وہ لگ چکا  ہے اغیار کے پیچھے تمہارے جنوں کو تب مانوں گا اشفاق  جب طلب آۓ گی طلبگار کے پیچھے

عشق تو لال ہے۔ ❤

 عشق تو لال ہے۔ ❤  جب کہا تھا محبت گناہ تو نہیں، پھر گناہ کے برابر سزا کیوں ملی۔ زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو، جان لے کر کہو گے کہ جیتے رہو۔ پیار جب جب زمیں پر اتارا گیا، زندگی تجھ کو صدقے میں وارا گیا۔ پیار زندہ رہا مقتلوں میں مگر، پیار جس نے کیا وہ مارا گیا۔ حد یہی ہے تو حد سے گزر جائیں گے،  عشق چاہے گا چپ چاپ مر جائیں گے۔ یہ محبت میں نکلی ہوئی فال ہے،  عشق تو لال ہے عشق تو لال ہے۔

کل شام ملیں گے

ہر شام یہ کہتے ہو _ کہ کل شام ملیں گے آتی نہیں وہ شام ___ جس شام ملیں گے اچھا نہیں لگتا مجھے ___ شاموں کا بدلنا کل شام بھی کہتے تھے __ کہ کل شام ملیں گے آتی ھے جو ملنے کی گھڑی _ کرتے ہو بہانے ڈرتے ہو ڈراتے ہو ____ کہ الزام ملیں گے یہ راہِ محبت ھے ____ یہاں چلنا نہیں آساں اس راہ میں تم جس سے ملو _ بدنام ملیں گے دل لے کے وہ میرا ____ آرام سے بولے بس خواب کی صورت ___ تمہیں دام ملیں گے امید ھے وہ دن بھی کبھی آئیں گے _ سُن لو ہم تم سے ملیں گے ___ اور سرِ عام ملیں گے