ہار کے پیچھے
اقرار ہی تو ہے اس کے انکار کے پیچھے
جیت نظر آ رہی ہے مجھےہار کے پیچھے
ہمارے سامنےتو ہے آفتابِ ہجر کا ظہور
جبکہ سایہٕ وصل ہے دیوار کے پیچھے
دو نہیں تو چار دن جشنِ بہار منالو گے
ایک دن خزاں نے آنا ہے بہار کے پیچھے
وہ تو الجھنے سے محتاط رہتا تھا آج
سبب کیا ہے اس کے تکرار کے پیچھے
چوٹ کھا کر آ جاۓ گا راہِ راست پہ
اگر وہ لگ چکا ہے اغیار کے پیچھے
تمہارے جنوں کو تب مانوں گا اشفاق
جب طلب آۓ گی طلبگار کے پیچھے
Comments
Post a Comment