نہ بنے

 زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے

اور چاہیں کہ چھُپا لیں تو چھُپائے نہ بنے


ہائے بےچارگیِ عشق کہ اس محفل میں

سر جھُکائے نہ بنے، آنکھ اٹھائے نہ بنے


یہ سمجھ لو کہ غمِ عشق کی تکمیل ہوئی

ہوش میں آ کے بھی جب ہوش میں آئے نہ بنے


کس قدر حُسن بھی مجبورِ کشا کش ہے کہ آہ

منہ چھُپائے نہ بنے، سامنے آئے نہ بنے


ہائے وہ عالمِ پُر شوق کہ جس وقت جگر

اُس کی تصویر بھی سینے سے لگائے نہ بنے

Comments

Popular posts from this blog

تمام شد

کل شام ملیں گے

والدین کا دل جیتنے کے لیے دس باتوں کا خیال رکھیں