دل دھڑکتا ہے
جبھی تو سنتے ہی کانوں میں دل دھڑکتا ہے
کہ دل سے کی گئی باتوں میں دل دھڑکتا ہے
حضورِ یار لرزتا نہیں مرا کاسہ
یہ مجھ فقیر کے ہاتھوں میں دل دھڑکتا ہے
یہ کس کی دید کو بے تاب ہیں مری آنکھیں
کہ رات دن مری آنکھوں میں دل دھڑکتا ہے
ہے جان جیب تراشوں کے ہاتھ میں اس کی
کہ اس کا جیب کے سکوں میں دل دھڑکتا ہے
کبھی کبھی میں کوئی کام دل سے کرتا ہوں
کبھی کبھی مرے کاموں میں دل دھڑکتا ہے
کوئی تو ٹھیک سے اک عمر بھی نہیں جیتا
کسی کسی کا زمانوں میں دل دھڑکتا ہے
وہ شخص طاق ہے رنگوں کی شاعری میں کبیر
کہ اس کے ہاتھ سے ساتوں میں دل دھڑکتا ہے
Comments
Post a Comment